Dear User! This will create your account as a consultant user. When you create
your account, you will be notified through an email once your account is
verified by the System Administrator. Thanks
Amjad Miandad
اسلام علیکم،
میرا چھوٹا بھائی اپنے گھر نیو گائنی کیس کے لیے شروع سے ہری پور میں واقع 'مہر جنرل ہسپتال' سے علاج اور دیکھ بھال کروا رہا تھا۔
کے پی کے حکومت کے صحت سہولت کارڈ کے ذریعے ہی ذچہ و بچہ کا علاج معالجہ چل رہا تھا لیکن اب جا کر ڈیلیوری سے ایک آدھ ہفتے پہلے جب انہوں نے دیکھا کہ اب کوئی ہسپتال اس کیس کو اس مقام سے صحت کارڈ کے تحت نہیں لے گا تو انہوں نے میرے بھائی سے 55 ہزار روپے کی ڈیمانڈ کی ڈیلیوری چارجز کی مد میں اور بہانہ بنایا کہ ہیپاٹائٹس سی کا کیس ہے صحت سہولت کارڈ پر ہم نہیں کریں گے اگر آپ الگ سے 55 ہزار دیں گے تو پھر ہم یہ کیس کریں گے۔
سننے میں آیا ہے کہ یہ ہسپتال دو میاں بیوی چلاتے ہیں بیوی ڈاکٹر ہیں اور شوہر شکیل ایڈمنسٹریٹر۔
اب وہ غریب نہ تو 55 ہزار کا بندوبست کر سکتا ہے اور نہ ان کو مجبور کیونکہ ہمارا نظام ہی ایسا منحوس ہو چکا ہے کہ نیچے سے لیکر اوپر تک ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو پتہ نہیں لائسنس بھی ایسے کیسے جاری کر دیتے ہیں ایسے لٹیروں کو۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ اس مقام پر لا کر بے یارو مددگار چھوڑنے پر اس ہسپتال کا لائسنس کینسل کیا جائے لیکن افسوس ۔۔
میرے بھائی کو اب اپنی بیگم کو ایبٹ آباد شہر لے کر جانا پڑ رہا ہے اور اتنے دور ایک شہر سے دوسرے شہر آنا جانا نہ تو مالی طور پر پہنچ میں ہے اور نہ ہی ذچہ و بچہ کی صحت اور حفاظت کے نقطہ نظر سے۔
حکومت اس بات کو یقینی کیوں نہیں بناتی کہ اس طریقے سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اور اس طرح ایسے مشکل وقت میں یہ ہسپتال مریض چھوڑنے کا سوچ بھی نہ سکیں اور بحفاظت علاج کرنے کے پابند بنائے جائیں۔
کمپلین کی ہے صحت سہولت کارڈ کمپلین نمبر پر۔ ان کے بقول جب ہسپتال کیس نہیں لے رہا تو وہ کیا کر سکتے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیس ہسپتال کے ہی پاس تھا اور وہ ابھی بھی کیش لے کر کیس کرنے پر تیار ہیں صحت کارڈ پر نہیں کرنا چاہتے۔